☰  
× صفحۂ اول (current) دین و دنیا( مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی ؒ) انٹرویو(مرزا افتخاربیگ) دنیا سپیشل( سید ظفر ہاشمی/ اسلام آباد ) متفرق(احمد صمد خان ) اسپیشل رپورٹ(ایم آر ملک) رپورٹ(ایم ابراہیم خان ) سنڈے اسپیشل(طیبہ بخاری ) فیشن(طیبہ بخاری ) کچن() کھیل(طیب رضا عابدی ) خصوصی رپورٹ(محمد ندیم بھٹی) صحت(حکیم قاضی ایم اے خالد) غورطلب(امتیازعلی شاکر) شوبز(مرزا افتخاربیگ) خواتین(نجف زہرا تقوی) دنیا کی رائے(ظہور خان بزدار)
خواہشات کی غلامی اپنا احتساب خود کریں، کوئی اور کرے گا تو مشکل ہوگی - دنیا سپیشل دنیا میگزین

خواہشات کی غلامی اپنا احتساب خود کریں، کوئی اور کرے گا تو مشکل ہوگی

تحریر : خالد نجیب خان

04-26-2020

   یہ شاید فروری کے دوسرے ہفتے کی بات ہے جب پڑوس سے ایک آنٹی مٹھائی کا ڈبہ لے کر آئیں اور بتایا کہ اُن کے بیٹے کی منگنی ہو گئی ہے اور اُس نے گاڑی بھی خریدی ہے۔
 

 

اُن سے دو خوشخبریاں سُن کر بہت خوشی ہوئی جواب میں اُنہیں مبارکباد دیتے ہوئے اُن کا بھی منہ میٹھا کرایا اور کہا کہ اب شادی کرنے میں دیر نہ کیجئے گا کیونکہ پہلے ہی خاصی دیر ہو چکی ہے۔کہنے لگیں،ہاں، انشاء اللہ تعالیٰ اپریل کے وسط تک بیٹے اور بیٹی دونوں کی شادیاں کردیں گے، بیٹے کی اگر نہ بھی کی تو بیٹی کی تو بہرحال کر ہی دیں گے۔ میں نے کہا کہ یہ تو آپ نے ایک اور خوشخبری سنائی ہے، بہن بھائی کی ایک ساتھ شادی سے اخراجات بھی خاصے کم ہوجائیں گے۔پھر کہنے لگیں: ’’آپ لوگوں نے شادی میں پوری تیاری کے ساتھ شرکت کرنی ہے،آپ نے اپنا ڈھول بھی لے کرآنا ہے اور رونق بھی لگانی ہے‘‘۔ہماری بیگم صاحبہ نے ایک مرتبہ ہماری طرف دیکھا اور پھر حامی بھرتے ہوئے کہا کہ ہاں ہاں ضرور آئیں گے اور رونق بھی لگے گی ۔
   کچھ ہی دنوں کے بعد پاکستان میں کورونا کا انکشاف ہوگیا۔سب کا یہی خیال تھا کہ یہ وائرس ہمارے لئے نہیں ہے بلکہ کفار خصوصاًالم غلم کھانے والی قوموں کیلئے ہے اور چند روز میں یہ سب مسئلہ ختم ہو جائے گا،زیادہ سے زیادہ مارچ کے آخر تک تو یقینا ختم ہو ہی جائے گا۔ مارچ کے آخر تک کورونا وائرس کے ختم ہونے کی تمنا اور اُمید پوری نہ ہوئی تو اپریل کے وسط کی آس لگا لی۔ مارچ گزرنے کے بعد جب اپریل بھی نصف سے زیادہ گزرگیا تومعلوم ہوا کہ سب اندازے اور تخمینے غلط ہوچکے ہیں۔لوگ گھروں میں بیٹھے بیٹھے اُکتا گئے تھے۔ ہر کسی کو اپنی ہی پڑی تھی، کسی کو آن لائن کلاس کی فکر لاحق تھی تو کسی کو یہ فکر کہ وہ گھر پر رہ کر دفتر کا کام کرے یا اہل خانہ کے مجوزہ گھر کے کام کرے اور جو لوگ اِن سب مسائل سے آزاد تھے وہ استقبالِ رمضان کی تیاریوں میں مصروف تھے۔انہی دنوں میں ایک مرتبہ گلی میں سر نکالا تو آنٹی کے بیٹے پر نظر پڑی تو فوراً یاد آیا کہ اِس کی تو منگنی ہوئی تھی اور آج کل میں شادی ہونے والی تھی۔ کیلنڈر دیکھا تو معلوم ہوا کہ بتائی گئی متوقع تاریخ کو گزرے بھی کئی دن ہو گئے ہیں۔خیال کیا کہ اُنہوں نے بھی اور بہت سے لوگوں کی طرح سادگی سے رسم کر لی ہوگی کیونکہ شادی کی تقریب میں اجتماع پر تو پابندی عائد ہے۔ میں نے آنٹی کو مبارکباد دینے کیلئے فون کیا تو شکوے کے انداز میں کہنے لگیں؛’’یاد آگئی ہماری آج ہم غریبوں کی‘‘۔
   میں نے کہا آنٹی شرمندہ نہ کریں ،آپ یہ بتائیں کہ شادی کی تقریبات تو بخوبی انجام پاگئیں ناں؟
   کورونا کو خالصتاً زنانہ گالیاں دیتے ہوئے کہنے لگیں یہ میرے بچوں کی خوشیوں میں رکاوٹ بن گیا ہے۔ آپ خود بتائواِسکے ہوتے ہوئے کیسے بچوں کی شادیاں کی جاسکتی ہیں؟
   میں نے کہا آنٹی کورونا وائرس کی وجہ سے شادیوں کے بڑے بڑے اجتماعات پر پابندی لگائی گئی ہے، شادیوں سے تو نہیں روکا گیا ہے۔اِن حالات میں آپ کے گھر کے چندافراد بارات لے کر جاتے اور دلہن لے کر آجاتے اور اِسی طرح آپ کی بیٹی کے سسرال والے بھی چند افراد پر مشتمل بارات لے کر آتے اور اپنی دلہن لے جاتے۔اِس طرح کرنے سے فرض بھی ادا ہوجاتا اور اچھی خاصی رقم کی بچت بھی ہوجاتی اور بچی ہوئی رقم سے بہت سے لوگوں کا بھلا کیا جاسکتا تھا۔
کہنے لگیں؛’’ناں جی ناں بچت کیوں کرنی ہے،اتنے سالوں سے بیٹے نے محنت کرکے جو رقم جمع کی ہے ،اُس سے اپنے چاؤ تو پورے کرنے ہی ہیں،آج نہیں تو کچھ دن بعد سہی،کریں گے ضرور‘‘
   اب اُنہیں سمجھانا یا دلائل سے قائل کرنا اپنی توانائی اور وقت دونوں کو ضائع کرنے کے مترادف تھا۔کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ اُن کے دونوں بچے ہی زندگی کی تیس سے زیادہ بہاریں دیکھ چکے ہیں اور اُن کے بہت سے ہم عمر اِن دنوں اپنے بچوں کے سکول کے مسائل سے نبٹنے کی کوششیں کرتے پائے گئے ہیں۔ اپنے چائو،شوق اور خواہشات کی تکمیل کے لئے جہاں وہ پہلے ہی کئی سال گزار چکے ہیں وہاں اُن کیلئے مزید چند ماہ یا سال گزار دینا ناممکن تو نہیں۔ مجھے یہ بھی سمجھ آگئی تھی کہ وہ اپنی خواہشات اور شوقوں پر کوئیِ سمجھوتہ نہیں کرنے والیں اورہماری گلی کی یہ آنٹی دنیا کی واحد خاتون تو نہیں ہیں جو خواہشات کی تکمیل کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کو تیار ہوتی ہیں۔اگر ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں تومعلوم ہو گا کہ ہم نے اِس چند سالہ زندگی میں کتنی مرتبہ چھوٹی چھوٹی اور بڑی بڑی خواہشات کی تکمیل کیلئے کتنے بڑے بڑے اصولوں کی قربانیاں دی ہیں اور کئی بڑی بڑی قربانیاں تو یقیناً ایسی بھی نظر آئیں گی جو ایسی خواہشات کے لئے تھیں جو کہ محض چند لمحوں کی تسکین کیلئے تھیں۔
   معروف سائیکالوجسٹ مدیحہ اعجاز کا کہنا ہے کہ خواہشات کی تکمیل اگر حدود کے اندر رہ کر کی جائے تو اِس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے مگر اپنا سب کچھ دائو پر لگا کر خواہشات کے پیچھے چلے جانا ہر گز درست نہیں ہوتا۔ ایسا در اصل وہ لوگ ہی کرتے ہیں جن کی تربیت میں کوئی خاص کمی رہ گئی ہواورایسے لوگ کسی بھی کمیونٹی، طبقہ اورنکتہ نظر کے حامل ہوسکتے ہیں۔ اِن کی مخصوص محرومیاں ہی اُنہیں اِس سطح تک لے آتی ہیں کہ وہ چند لمحوں کی راحت کی خواہش کی تکمیل کیلئے اپنے ہی بنائے ہوئے بڑے بڑے اصولوں کی بھی دَھجیاں اُڑا دیتے ہیں ۔ ایک مرتبہ کلینک پر میرے پاس ایک بزرگ کو لایا گیا جن کو کئی طرح کے نفسیاتی مسائل نے گھیر رکھا تھا۔معلوم ہوا کہ وہ چھ بھائی تھے اُن کے بچپن میں اُن کے گھر میں کسی طرح کی بھی کوئی کمی نہیں تھی بلکہ افراط ہی افراط تھا۔اُن کے والدین نے اُنہیں اپنے والدین یعنی بچے کے دادا کو دے دیا وہاں پر وسائل اُس سے بھی زیادہ تھے۔ہر چیز اشارہ کرنے پر مل جاتی تھی خواہ وہ اُس کے والدین فراہم کریں یا اُس کے دادا جبکہ اُس کے دیگر پانچ بھائیوں میں سے کسی کے ساتھ یہ معاملہ نہیں تھا گویا وہ ایک نارمل زندگی بسر کر رہے تھے۔ یہ چھ بھائی آپس میں ملتے جلتے بھی رہتے تھے مگر اتنا ہی جتنا کہ ممکن تھا۔اِن حالات میں اُس بچے کو تمام تر دنیاوی نعمتیں تو ملیں مگر اپنے اصلی والدین سے محرومی بھی ملی تھی جو اُن کی شخصیت میں ایک خلا پیدا کرگئی اور اِس کی وجہ سے ہی اُن میں نفسیاتی مسائل پیدا ہو رہے تھے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ وہ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے آخری سطح سے بھی آگے جانے کو تیار پائے جاتے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ یہ معمولی سی چیز اگر اُن کو نہ بھی ملی تو اُن کو کوئی فرق نہیں پڑے گا مگر پھر بھی وہ اُس کو حاصل کرنے کیلئے آخری سطح تک چلے جاتے تھے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہیں کہ خواہشات کی تکمیل کرنے والے کی محرومی مادی وسائل سے متعلق ہی ہوبلکہ وہ کسی بھی طرح کی ہوسکتی ہے۔ بہت غریب یا مادی محرومیوں کا شکار افراد کی تربیت اگر اِس انداز سے ہوئی ہو کہ اُن میں میانہ روی اختیار کرنے کو پروموٹ کیا گیا ہو، فرد نارمل زندگی گزارنے کے قابل رہتا ہے۔ شادیوں اور خوشیوں کے مواقع پراسراف کرنے کے حوالے سے مدیحہ اعجاز کا کہنا ہے کہ کوئی شخص اگر اپنی چادر کے مطابق پاؤں پھیلاتے ہوئے خرچ کرتا ہے تو اُس کوایساہی کرنا چاہئے لیکن بہت زیادہ مشقت برداشت کرنے کے بعد محض اِس لئے خرچ کرنا کہ لوگ دیکھ کر اُن کی تعریف کریں گے ہرگز درست نہیں ہے۔ شادی کے موقع پر تو لوگ اِس لئے بھی خرچ کرتے ہیں کہ اُن کے خیال میں یہ خرچ زندگی میں محض ایک مرتبہ ہی ہونا ہوتا ہے، بے شک اُنہیں دوسری، تیسری یا چوتھی مرتبہ بھی خرچ کرنا پڑے،لیکن پہلی مرتبہ کرتے ہوئے تو یہی سوچ ہوتی ہے کہ ایک ہی مرتبہ خرچ کرنا ہے اور اِسکے لئے گزشتہ کئی سالوں سے وہاں رقمیں جمع بھی کی جارہی ہوتی ہیں۔
  کورونا وائرس نے جہاں اور بہت سے معاملات کو چھیڑا ہے وہاں شادیاں بھی ہیں۔بہت سے لوگ جو پہلے ہی فضول رسومات سے تنگ تھے اُنہوں نے کورونا کا شکر ادا کیا ہے کہ اِس کی وجہ سے اُن کی لاج رہ گئی ہے۔ ماضی میں جب شادیوں پر کھانا کھلانے پر پابندی عائد ہوئی تھی تو زیادہ تر لوگ اِس پابندی کے خلاف بات بھی کرتے تھے اور یہ بھی کہتے تھے کہ چلو اچھا ہے ،بچت ہوگئی۔اُس وقت بھی لوگوں کے دوہرے معیار دیکھنے کو ملے۔ یعنی کسی کی تقریب میں جاتے تو شادی پر کھانا نہ ملنے پر تنقید کی جاتی اور جب اپنے ہاں تقریب ہوتی تو اُس پابندی کے تمام محاسن بیان کردئیے جاتے۔
   خواہشات کی تکمیل اوراِن کی غلامی کرنے کے حوالے سے اللہ تعالی نے کئی جگہ پر رہنمائی فرمائی ہے۔
    سورۃ النساء میں فرمایا ہے؛’’اپنی خواہشِ نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو۔اوراگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے‘‘۔سورۃ الفرقان کی آیات 43اور44میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے؛’’کیا آپؐ نے اُسے دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش کو معبود بنا لیا ہے؟کیا پھرآپؐ اِس کے ذمہ دار بنتے ہیں ۔یا پھر آپؐ سمجھتے ہیں کہ بے شک اُن میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں۔وہ تو جانوروں کی طرح ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔‘‘
  گویا اپنی خواہشات کو عقل کے تابع رکھنے میں ہماری عافیت ہے۔خواہشات کو اپنے اوپر اِس طرح مسلط کر لینا کہ وہ ہمارے معبود بن جائیں قطعاً ٹھیک نہیں ہے۔بے شک نفس کا بندہ اور خواہشات کا غلام تو شُترِ بے مہار ہوتا ہے ، اُسے اُس کی خواہشات جدھر جدھر چاہیں لے جائیں، وہ اُن کے ساتھ ساتھ بھٹکتا پھرے گا۔ اُسے صحیح و غلط اور حق و باطل میں تمیز ہی نہیں رہتی۔
   رسول کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’تم میں کوئی ایک مومن نہیں ہو سکتا حتیٰ کہ اس کی خواہشات اُس کے تابع ہوجائیں جو میں لایاہوں۔‘‘ (یعنی قرآن)
    اپنی چاہت کی تکمیل میں بالکل آزاد اور بے لگام ہونا، انسانی خواہشات کی اولین اور اہم ترین خصلت ہے۔تاہم اِن خواہشات سے سیر ہونا یا نہ ہونا ایک الگ موضوع ہے اور اِس کے کئی درجات ہیں۔ بعض خواہشات ایسی ہوتی ہیں کہ جتنا بھی اُن کی تکمیل کی جائے اُن کی طلب اور چاہت میں کمی نہیں آتی اور اُن سے کبھی سیر نہیں ہواجا سکتا جبکہ بعض ایسی ہوتی ہیں جو وقت کے ساتھ ماند پڑجاتی ہیں۔ مختصر یہ کہ اِن تمام خواہشات کے درمیان اعتدال اور توازن کے بجائے شدت طلبی ایک مشترکہ صفت ہے۔
   حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے؛’’تم اپنی خواہشات سے بالکل اُسی طرح ڈرتے رہو جس طرح اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہو‘‘ یہ حقیقت ہے کہ انسان کیلئے خواہشات کی پیروی سے بڑا کوئی دشمن نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں اِس سے منع کیا گیا ہے۔ 
   ہزاروں ہوں یا صرف کوئی ایک ایسی خواہشں جس پر آپ کادم نکلتا ہواُس کا احتساب خود کریں کہ کوئی دوسرا کرے گا تو زیادہ خرابی ہوگی۔کورونا کے اِن دنوں میں جبکہ ہر طرف موت نہ بھی سہی مگر ایک خوف، بے یقینی اور مایوسی کی سی فضا پھیلی ہوئی ہے، ہمیں اپنی اصلاح کی طرف مائل ہونا چاہئے۔شاید اللہ تعالی نے ہمیں اپنے قریب آنے کا ایک موقع فراہم کیا ہے جس کو ہم پہچان نہیں پا رہے اور ہنسی مذاق اور طعن و تشنیع میں لگے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں اپنی پہچان کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)