حضور نبی کریم ﷺکے سامنے ایک صاحب نے اپنے زمانۂ جاہلیت کی آپ بیتی سنائی اور اس کا حسرت ناک نقشہ کچھ اس طرح کھینچا کہ نبی پاک ﷺبے قرار ہوگئے۔
وہ شخص کہنے لگا:’’یارسول اﷲ! ہم لوگ ناواقف تھے۔ ہمیں کچھ خبر نہ تھی۔ پتھر کے بتوں کو پوجتے تھے اور اپنی پیاری اولاد کو خود اپنے ہی ہاتھوں موت کے گھاٹ اُتار دیتے تھے۔یارسول اﷲ! میری ایک بہت ہی پیاری بچی تھی۔ہوا یوں کہ میں کہیں دور کام سے چلا گیا، میرے گھر میں ایک پیاری سی بچی پیدا ہوئی۔ میری بیوی نے مجھے نہیں بتایا۔ میں واپس آیا تو وہ چلنے پھرنے کے قابل ہو گئی تھی ۔واپس آ کر میں نے اسے دیکھا تو بہت غصہ آیا۔اور اسے دفن کرنے کا سوچا۔ میری بیوی نہ مانی۔یا رسول اللہ وہ بہت ہی فرمانبردار اور اچھی بچی تھی ۔میں جب بھی اس کو بلاتا وہ دوڑ کر میرے پاس آجاتی۔
ایک دن میں نے اس کو اپنے پاس بلایا وہ خوشی خوشی دوڑتی ہوئی میرے پاس آئی۔ میں اس کو اپنے ساتھ لے کر چلا۔ آگے آگے میں تھا اور وہ میرے پیچھے دوڑی چلی آ رہی تھی۔ میرے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر ایک گہرا کنواں تھا۔ جب میں اس کنویں کے قریب پہنچا تو رُک گیا۔ لڑکی بھی میرے قریب آگئی۔ پھر یارسول اﷲ! میں نے اس بچی کا ہاتھ پکڑا اور اُٹھا کر اس کنویں میں ڈال دیا۔ معصوم بچی کنویں میں چیختی رہی اور بڑی درد بھری آواز میں مجھے ابا! ابا! کہہ کر پکارتی رہی۔ یارسول اﷲ! یہی اس کی زندگی کی آخری پکار تھی۔‘‘
اﷲ کے رسول پاک ﷺنے یہ درد بھری داستان سنی تو دل بھر آیا اور بے اختیار آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ روتے روتے آپ ﷺکی داڑھی تر ہوگئی ۔رسول اﷲﷺکا عجیب حال تھا۔ ایک صحابی ؓنے کہا کہ تم نے یہ درد ناک آپ بیتی سنا کر رسول اﷲ ﷺکو دُکھ پہنچایا۔ رسول اﷲ ﷺنے فرمایا: ’’نہیں ان سے کچھ نہ کہو، ان سے کچھ نہ کہو۔ اس پر جو مصیبت پڑی ہے یہ اس کا علاج پوچھنے آئے ہیں۔‘‘ اور پھر انہی کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا: پھر ان سے کہا: ’’تم اسلام لے آئے ہو تو اس برکت سے زمانۂ جاہلیت کے سارے گناہ معاف ہوگئے۔ جائواور اب اچھے کام کرو‘‘۔ (مسند دارمی)
خدا ہی بہتر جانتا ہے کہ کتنی بے گناہ اور بے بس بچیاں اس ظلم اور سفاکی کا نشانہ بنیں اور کتنے دنوں تک بیٹیاں اپنے ماں باپ کے ہاتھوں زندہ دفن ہوتی رہیں۔ اگرچہ اس دور میں بھی کچھ رحم دل خدا ترس انسان ضرور تھے جو لڑکیوں کو اس ظلم اور بربریت سے بچانے کے لئے اپنی کوششیں کرتے رہتے تھے لیکن یہ انفرادی کوششیں اس ہولناک رسم کو ختم نہ کر سکیں۔